کیا عورت خود اپنا مہر مقرر کر سکتی ہے؟
سوال:
کیا حق مہر لڑکی خود طے کر سکتی ہے؟ شریعتِ مطہرہ میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
حق مہر عورت کا شرعی حق ہے اور اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے مطابق مہر کی مقدار میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے طے کی جائے گی۔ یعنی نہ صرف مرد بلکہ عورت کی رضا بھی ضروری ہے۔ مہر صرف کسی ایک فریق کی مرضی سے متعین نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مہر کی کم از کم مقدار 2.625 تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر رقم ہونی چاہیے۔ اس سے کم مہر مقرر کرنا شرعاً درست نہیں۔
دلائل و حوالہ جات:
الدر مع الرد میں ہے:
(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.
(قوله الاعتراض) أفاد أن العقد صحيح. وتقدم أنها لو تزوجت غير كفء. فالمختار للفتوى رواية الحسن أنه لا يصح العقد، ولم أر من ذكر مثل هذه الرواية هنا، ومقتضاه أنه لا خلاف في صحة العقد، ولعل وجهه أنه يمكن الاستدراك هنا بإتمام مهر المثل، بخلاف عدم الكفاءة والله تعالى أعلم...(قوله دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام.
(الدر مع الرد، کتاب النکاح، باب الكفاءة، ج:3، ص:94، ط:سعید)
رد المحتار میں ہے:
"والواجب بالعقد إنما هو مهر المثل، ولذا قالوا إنه الموجب الأصلي في باب النكاح وأما المسمى، فإنما قام مقامه للتراضي به."
(رد المحتار، کتاب النکاح، باب المهر، ج:3، ص:100، ط:سعید)
الدر المختار میں ہے:
"(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره "لا مهر أقل من عشرة دراهم."
(الدر المختار، کتاب النکاح، باب المهر، ج:3، ص:101، ط:سعید)
فقط، واللہ اعلم بالصواب