ڈی این اے ٹیسٹ اور آرگن ڈونیشن کا شرعی حکم
اسلامی شریعت میں کسی بھی جرم یا نسب کے تعین کے لیے گواہی اور شرعی اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جدید سائنسی ایجادات جیسے ڈی این اے ٹیسٹ کے حوالے سے علماء کرام کی مختلف آراء ہیں:
- نسب کے ثبوت کے لیے: بعض علماء اسے معاون ثبوت کے طور پر قبول کرتے ہیں لیکن قطعی دلیل نہیں مانتے۔
- جرم کے ثبوت کے لیے: چونکہ ڈی این اے ٹیسٹ میں غلطی کا امکان ہوتا ہے، اس لیے صرف اسی پر سزا دینا درست نہیں۔
نتیجہ: اسلامی عدالتوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو حتمی ثبوت کے بجائے معاون دلیل کے طور پر لیا جا سکتا ہے، مگر اس پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
اسلامی فقہ میں آرگن ڈونیشن ایک نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ درج ذیل اصول دیکھے جاتے ہیں:
- زندہ انسان سے اعضاء لینا: اگر عطیہ دینے والے کی زندگی کو خطرہ نہ ہو، تو بعض فقہاء اجازت دیتے ہیں۔
- میت سے اعضاء لینا: کچھ فقہاء ضرورت کے تحت اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ مرنے والے کی اجازت ہو یا وارثین اجازت دیں۔
- خرید و فروخت: اسلام میں انسانی اعضا کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔
نتیجہ: بعض فقہاء کی رائے میں ضرورت کی صورت میں، اگر کسی کی جان بچانے کے لیے آرگن ڈونیشن کیا جائے اور اس میں شرعی حدود کا خیال رکھا جائے، تو اس کی مشروط اجازت دی جا سکتی ہے۔