روبوٹ سرجری کا شرعی جائزہ
تعارف:
جدید میڈیکل سائنس کی ترقی نے صحت کے شعبے میں حیران کن تبدیلیاں کی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی ایجاد "روبوٹ سرجری" ہے، جس میں روبوٹ کو سرجری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے؟
روبوٹ سرجری کیا ہے؟
روبوٹ سرجری ایک جدید طریقۂ علاج ہے جس میں ڈاکٹروں کی معاونت کے لیے مشینی بازو اور مصنوعی ذہانت استعمال کی جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر نازک اور پیچیدہ آپریشنز میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
اسلام میں جدید سائنسی ایجادات کے حوالے سے بنیادی اصول یہ ہے کہ جب تک کوئی چیز شریعت کے کسی واضح اصول کے خلاف نہ ہو، اسے جائز سمجھا جاتا ہے۔
1. انسانی زندگی کی حفاظت
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائدہ: 32)
ترجمہ: اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانیت کو بچا لیا۔
چونکہ روبوٹ سرجری مریض کی زندگی بچانے میں مدد دیتی ہے، اس لیے اصولی طور پر اس کا استعمال جائز ہو سکتا ہے۔
2. علاج کی ضرورت اور فقہاء کی آراء
اسلامی فقہ میں اصول ہے کہ ضرورت کے تحت بعض امور جائز ہو جاتے ہیں۔ علماء کے مطابق اگر روبوٹ سرجری زیادہ محفوظ اور بہتر نتائج فراہم کرتی ہے تو اس کا استعمال جائز ہے۔
فقہی احکام
- اگر روبوٹ سرجری کا مقصد انسانی زندگی کو بچانا ہے اور اس میں کسی شرعی اصول کی خلاف ورزی نہیں تو یہ جائز ہے۔
- اگر روبوٹ مکمل خودکار ہو اور انسانی نگرانی کے بغیر کام کرے تو اس پر مزید غور کی ضرورت ہے۔
نتیجہ
روبوٹ سرجری ایک جدید میڈیکل ٹیکنالوجی ہے جس کے فوائد واضح ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے، جب تک یہ انسانی جان کی حفاظت کے لیے ہو اور کسی حرام عنصر پر مشتمل نہ ہو، یہ جائز سمجھی جا سکتی ہے۔