لال مسجد آپریشن: مساجد کی بے حرمتی اور امِ حسان پر بے بنیاد الزامات
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مساجد اور دینی مدارس ہمیشہ سے دین کی ترویج کا مرکز رہے ہیں، مگر حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں واقع لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف کی جانے والی کارروائی ایک تشویشناک صورتحال پیدا کر چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے مساجد کو گرانا اور دینی شخصیات پر الزامات عائد کرنا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
🔹 مساجد گرانا: ایک سنگین گناہ
قرآن و حدیث میں مساجد کو اللہ کا گھر قرار دیا گیا ہے، جہاں ذکرِ الٰہی اور دینی تعلیم عام کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
"اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر ہونے سے روکے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے؟" (البقرہ: 114)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مساجد کی بے حرمتی اور انہیں مسمار کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ مگر بدقسمتی سے، اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جامعہ حفصہ کی زمین کو متنازع قرار دے کر اسے زبردستی خالی کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
🔹 امِ حسان پر بے بنیاد مقدمات
جامعہ حفصہ کی پرنسپل امِ حسان ایک معزز دینی شخصیت ہیں، جو خواتین کو دینی تعلیم فراہم کرنے میں مصروف عمل رہی ہیں۔ مگر ان پر لگائے گئے الزامات بغیر کسی مضبوط بنیاد کے ہیں۔
- الزام: کارِ سرکار میں مداخلت
- حقیقت: امِ حسان صرف اپنے حقوق کے دفاع کے لیے نکلی تھیں اور پُرامن احتجاج کر رہی تھیں۔
- الزام: دہشت گردی کی دفعات
- حقیقت: ایک عالمہ خاتون کو دہشت گرد قرار دینا نہایت افسوسناک ہے، جبکہ وہ صرف مساجد اور دینی مدارس کے تحفظ کی بات کر رہی تھیں۔
- الزام: غیر قانونی قبضہ
- حقیقت: جامعہ حفصہ وہی مدرسہ ہے جو 2007 کے آپریشن کے بعد دوبارہ قائم ہوا، اور اس پر حکومت نے خود کام کرنے کی اجازت دی تھی۔
🔹 لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا تاریخی پس منظر
لال مسجد 1947 سے اسلام آباد میں دینی اور اصلاحی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے۔ جامعہ حفصہ میں ہزاروں طالبات قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔
2007 میں جنرل مشرف کے دور میں بھی لال مسجد پر آپریشن کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں معصوم جانوں کا نقصان ہوا۔ آج پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔
🔹 ریاستی جبر اور مذہبی آزادی پر حملہ
- پاکستان کا آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، مگر حکومت کی کارروائی آئین کے آرٹیکل 20 کی خلاف ورزی ہے، جو ہر شہری کو آزادی سے مذہبی عبادات اور تعلیم کا حق دیتا ہے۔
- حکومت کی یکطرفہ کارروائیاں دینی طبقے کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہیں، جبکہ پاکستان کا قیام بھی اسلام کے نام پر ہوا تھا۔
- اگر ایک خاتون عالمہ پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جائیں گے، تو کل کو ہر دینی ادارے کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔
🔹 آخر میں: حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں
📌 حکومت کو مساجد اور دینی مدارس کے خلاف کارروائیاں بند کرنی چاہئیں۔
📌 امِ حسان اور دیگر گرفتار شدگان کو فوری رہا کیا جائے۔
📌 مساجد کی مسماری اسلامی اقدار اور آئین کے خلاف ہے، اس لیے اسے فوری روکا جائے۔
اگر ریاستی جبر اسی طرح جاری رہا تو عوام میں مزید بے چینی بڑھے گی، اور دینی طبقہ اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونے پر مجبور ہو جائے گا۔
📢 آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا مساجد کو گرانا اور دینی شخصیات کو نشانہ بنانا درست ہے؟ کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں!